یوم پیدائش: ناصر کاظمی - تحریر: ندیم عباس
Nasir Kazmi 1925-1972 - Biography & Profile Urdu
Nasir Kazmi Biography |
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا "
"پہلے تیرا نام لکھا تھا
ناصر کاظمی کا پورا نام سید ناصر رضا کاظمی تھا ان کی پدائش 8دسمبر 1925ءکو سید محمد سلطان کاظمی کے گھر شہر انبالہ میں ہوا ان کے والد ایک ذی حیثیت شخص تھے اور تقسیم سے قبل وہ سرکار انگلشیہ متحدہ ہندوستان کی رائل انڈین آرمی میں صوبیدار کے عہدے پر فائز تھے۔
ناصر کاظمی کی ابتدائی تعلیم انبالہ ہی میں مسلم ہائی سکول میں تکمیل پائی ان کا بچپن انبالہ شہر کی گلیوں ریلوے لائن کے گردباغات اور پرانی حویلیوں میں گزرا۔ پندرہ برس کی عمر میں شعر کہنے والے اردو غزل کی تاریخ میں جب بھی جدید غزل کو موضوع بحث بنایا جائے گا ناصر کاظمی کا نام سر فہرست دکھائی دے گا۔
چھوٹی بحرت استعارے کا استعمال ناصر کاظمی کی شاعری کے نمایا عناصر تھے۔ناصر کاظمی زیادہ راتوں کو جاگتے اور دن کو سوتے تھے آپ کی جیب میں ایک چھوٹی سی پنسل ہوتی تھی ہوٹل پر چائے پیتے تو بل پر دستخط کر کے سرخرو ہوگئے اس طرح ان کی ساری رات بلوں پر دستخط کرتے ہی گزر جاتی۔
ہوٹل والوں کے سینکڑوں روپے ہوگئے تو بھی مطمئن اس لیے کہ ان کا یہ گاہک اور شاعروں کی طرح کا نہ تھا۔بزرگوں کا احترام کرنا،عام زندگی میں شاعری سے کام نہ لینا،صرف غزل کی کتابیں پڑھنا ، نثر کی کتابوں سے دور بھاگنا ان کا روزمرہ تھا۔
ان کی شاعری میں میر کا رنگ نمایاں تھا۔میر کے ساتھ ساتھ وہ اختر شیرانی اور حفیظ ہوشیارپوری سے بھی بہت متاثر دکھائی دیتے تھے۔ناصر کاظمی کا پہلا شعری مجموعہ "برگ نے " 1952ء میں مکتبہ کارواں لاہور نے شائع کیا۔اس شعری مجموعے کی اشاعت کے بعد ان کا شمار نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں موجود مستند اردو شعرا میں ہونے لگا۔نثر نگاری کا یہ حسن ان کے نثری مجموعے"خشک چشمےکے کنارے" میں ابھرکر سامنے آیا۔اگر ناصر کاظمی نثر کے لیے کچھ اور وقت نکالتے تو ان کا شمار اردو کے بہترین نثرنگاروں میں ہوتا۔ان کا نثری مجموعہ ان کی وفات کے بعد 1982ء میں چھپا
ناصر نے 1950 میں ایک صحافی کی حیثیت سے بطور مدیر '' اوراق نو"میں کام شروع کیا دو برس یہاں کام کیا اور اس کے بعد 1952 میں مدیر "ہمایوں"مقرر ہوئے اور یہاں پانچ برس کام کیا یا یہ عرصہ 1957 تک محیط تھا۔اس کے بعد روزی روٹی کے مسائل کے باعث محکمہ سماجی بہبود میں کام کیا یا پھر ان کی تقریریں بطور پبلسٹی آفیسر ویلج ایڈ 1959 میں ہوئی۔اس ادارے میں انہوں نے جولائی 1964 تک کام کیا یا پھر اگست 1954 کو لاہور ریڈیو سے منسلک ہو گئے گئے اور زندگی کے آخری ایام تک اسی ادارے سے وابستہ رہے جب ریڈیو لاہور سے منسلک ہوئے تو وہاں انہوں نے اپنے پرانے دوست بھی دوبارہ ملے۔
کئی طرح کی نوکریوں اور دیگر نامساعد حالات کے باوجود ناصر کا قلم آخری ایام تک چلتا رہا۔انہیں چھوٹی بحر میں شعر کہنے پر بھی ملکہ حاصل تھا ان کا ایک مجموعہ کلام پہلی بارش اردو غزل میں ایک الگ ہی نوعیت کا تجربہ تھا جس میں تمام غزلیں ایک ہی وزن اور ایک ہی ردیف کافیہ میں ہیں ۔
ناصر کاظمی جو 1947ٔء میں بٹوارے کی بربادیاں دیکھ چکے تھے ان کے دل میں بنگال کا درد بھی گہرا تھا۔آخری دن میں وہ بھی بنگال کو یاد کرتے رہے۔ناصر کاظمی آپ نے بے مثال کام بے نظیر شاعری اور نکتہ آفرینی کے باعث رہتی دنیا تک زندہ جاوید رہیں گے۔
ان کی خدمت کا اعتراف سرکار پاکستان نے بی کیا اور ان کی برسی پر ڈاک کا اعزازی ٹکٹ جاری کیا ہے جس کی قیمت پندرہ تھی۔ناصر کاظمی کو آخری ایام میں معدے کا کینسر ہو گیا ہے اسی مرض کے باعث وہ 2 مارچ 1972 کو میو ہسپتال میں اپنے پیاروں کو چھوڑ کر اگلے جہاں چلے گئے۔انھیں قبرستان مومن پورہ میکوڈ روڈ میں دفنایا گیا۔یہ قبرستان لاہور کے ایک مشہور سینما صنوبر کے سامنے واقع ہے۔ صنوبر کا نام تبدیل ہو کر امپیریل ٹھہرا اور کل یہ بھی اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہا ہے ناصر کی
قبر کے ساتھ ہی ان کی زندگی کی سب سے جان نثار اور وفا شعار ساتھی شفیقہ ناصر کاظمی کی قبر ہیں۔